سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
سحاب تھا کہ ستارہ، گریز پا ہی لگا
وہ اپنی ذات کے ہر رنگ میں ہَوا ہی لگا
میں ایسے شخص کی معصومیت پہ کیا لکھوں
جو مجھکو اپنی خطاؤں میں بھی بھلا ہی لگا
زباں سے چُپ ہے مگر آنکھ بات کرتی ہے
نظراُٹھائی ہے جب بھی تو بولتا ہی لگا
جو خواب دینے پہ قادر تھا میری نظروں میں
عذاب دیتے ہوئے بھی مجھے خدا ہی لگا
نہ میرے لُطف پہ حیراں نہ اپنی اُلجھن پر
مُجھے یہ شخص تو ہر شخص سے جُدا ہی لگا
___