Follow Me@facebook:Kiran Dairy
Follow Me...@Twitter:Kiran Dairy
Follow Me@ +Google:Kiran Dairy

Saturday, May 2, 2015

 درِ قفس سے پرے جب صبا گزرتی ہے

کسے خبر ، کہ اسیروں پہ کیا گزرتی ہے
تعلقات ابھی اِس قدر نہ ٹوٹے تھے
کہ ـــ تیری یاد بھی دل سے خفا گزرتی ہے
وہ اَب ملے بھی تو ملتا ہے اِس طرح جیسے
بجھے چراغ کو چھو کر ہوا گزرتی ہے
فقیر کب کے گئے جنگلوں کی سمت مگر !
گلی سے آج بھی اُن کی صدا گزرتی ہے
یہ اہلِ ہجر کی بستی ہے احتیاط سے چل
مصیبتوں کی یہاں اِنتہا گزرتی ہے
بھنور سے بچ تو گئیں کشتیاں ، مــــگر اب کے
دلوں کی خیر کہ موجِ بلا گزرتی ہے
نہ پوچھ اپنی انا کی بغاوتیں " محسنؔ "
درِ قبول سے بچ کر دعا گزرتی ہے
محسنؔ نقوی


No comments:

Post a Comment

Archive

Top View Poetry